12 نومبر، 2024، 3:35 PM

تہران ریاض تعلقات میں بہتری سے تل ابیب کی نیندیں حرام ہوگئیں، عرب دنیا کے اخبارات کی شہ سرخیاں

تہران ریاض تعلقات میں بہتری سے تل ابیب کی نیندیں حرام ہوگئیں، عرب دنیا کے اخبارات کی شہ سرخیاں

تہران اور ریاض کے تعلقات میں بہتری کے مثبت اثرات اور دشمن کے خلاف لبنانی مزاحمتی فورسز کی غیر معمولی صلاحیتیں عرب دنیا کے اخبارات کا موضوع ٹھہری ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: سعودی عرب اور ایران کے درمیان سیاسی اور ان دنوں عسکری میدانوں میں خطے کے اہم ممالک کی حیثیت سے تعلقات میں بہتری، خطے بالخصوص یمن کی صورت حال پر نمایاں اثر ڈال سکتی ہے۔ 

اس سلسلے میں روزنامہ رائ الیوم نے لکھا ہے کہ حال ہی میں ایران اور سعودی عرب نے دوطرفہ تعلقات بالخصوص عسکری شعبوں میں بہتری کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ ایرانی فوجی حکام کا سعودی عرب کا دورہ اور دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ مشقوں کے انعقاد کی خبروں کی اشاعت سے تہران اور ریاض کے درمیان سیاسی تعلقات میں بہتری کے بعد فوجی اقدامات کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب یمن سمیت اپنے علاقائی معاملات کا حل تلاش کر رہا ہے۔

 ان دونوں ممالک کے درمیان عسکری اور سیاسی سطح پر تعلقات میں بہتری کے یمن کی صورتحال پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ 

ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب نے بڑی حد تک امریکہ اور مغربی ممالک کے دباؤ سے منہ موڑ لیا ہے اور وہ یمن پر حملے سے پیدا ہونے والے معاشی بحران اور اپنے امیج کو مزید خراب  کرنے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ 

روزنامہ  القدس العربی نے ٹرمپ کے بارے میں لکھا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے پر امریکہ میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ وہ بھول گئے ہیں کہ امریکہ ایک ملک ہے جس کے صدر کے مخصوص اختیارات اور مختلف اداروں کی خودمختاری کے پابند ہیں۔ ہاں، ٹرمپ یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، لیکن وہ یورپ اور امریکہ کے فوجی تعلقات میں یکسر اثرانداز نہیں ہو سکیں گے۔ اس کے علاوہ امریکی فوج صدر کے احکامات کو مسترد کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی معاملات کے علاوہ تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے امیگریشن پولیس کے ساتھ متعدد ریاستوں کا عدم تعاون، جو ٹرمپ کے اہم ترین وعدوں میں سے ایک تھا، ان کے لیے ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ 

لبنانی روزنامہ الاخبار نے رپورٹ دی ہے کہ مزاحمتی فورسز نے نے صیہونی حکومت کے خلاف اپنے حملوں اور کارروائیوں کی شدت میں خاص طور پر میزائل کے شعبے میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران لبنانی فورسز نے خیلیج حیفہ، صفد اور عکا کے شہروں کے ساتھ ساتھ حیفہ کے شمال میں الکریوت کے علاقے پر بھی میزائل داغے ہیں۔ ان شہروں اور علاقوں کا مقبوضہ فلسطین کے شمال میں ایک اہم اقتصادی وزن ہے۔ جس چیز نے دشمن کو حیران کر دیا ہے وہ لبنان کے وسطی علاقوں سے مقبوضہ فلسطین پر میزائل حملوں کا آغاز ہے۔ یہ وہی علاقے ہیں جن کے بارے میں صہیونی فوج نے کلیئر کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان علاقوں کے دیہاتوں میں یادگاری تصاویر کھنچوائی تھیں۔!

  شام کے اخبار الثورہ نے رپورٹ دی ہے کہ صیہونی حکومت ہر اس چیز سے خوفزدہ ہے جس کا عرب دنیا اور فلسطین سے معمولی سا تعلق ہو۔ چاہے وہ مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہو یا ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں عمارتوں کے اوپر فلسطینی پرچم۔ 

بئر السبع کے علاقے میں العراقیب گاؤں کئی دہائیوں سے صیہونی حکومت کے قبضے کے خلاف نبرد آزما ہے اور سینکڑوں بار تباہ ہونے کے باوجود اب بھی کھڑا ہے۔ ظلم و بربریت کی یہ انتہا صہیونیوں کے ایک چھوٹے سے فلسطینی گاؤں سے خوف اور دہشت کو ثابت کرتی ہے۔

 ایمسٹرڈیم میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بعض عمارتوں کے اوپر فلسطینی پرچم بلند کرنے سے صہیونی ٹیم کے شائقین کس قدر مشتعل ہوئے اور کس طرح انہیں نیچے اتارنے کی کوشش کی۔

 شامی اخبار الوطن نے لکھا ہے کہ جنوبی لبنان پر حملے کے آغاز کو 40 دن سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی نیتن یاہو نہ صرف اس علاقے کے کسی چھوٹے ٹکڑے پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ وہ ہر روز مقبوضہ فلسطین پر میزائل حملوں کی شکل میں اپنی رسواکن شکست کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کے فوجی دباؤ سے حزب اللہ کمزور نہیں ہوئی ہے، اس لئے موجودہ جنگ کو ختم کرنے کے لیے ایک معاہدے کی طرف بڑھنا اس رجیم کی مجبوری اور اس کے لئے ایک اہم امر بن گیا ہے۔

News ID 1928082

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha